ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ملکی خبریں / اورلینڈو حملہ میں عمران یوسف نے درجنوں جانیں بچائیں

اورلینڈو حملہ میں عمران یوسف نے درجنوں جانیں بچائیں

Sat, 18 Jun 2016 11:23:50  SO Admin   S.O. News Service

واشنگٹن،17جون(آئی این ایس انڈیا)امریکی شہر اورلینڈو میں گذشتہ اتوار کو پلس نائٹ کلب کے قتل عام کے دوران لوگوں کی جرات اور بہادری کی کہانیاں بھی سامنے آ رہی ہیں۔24سالہ نوجوان عمران یوسف اس کلب میں باؤنسر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ وہ اس سے قبل افغانستان میں امریکی فوج کے ساتھ جنگ میں حصہ لے چکے ہیں۔لیکن گیارہ جون کی اس بھیانک رات کو انھوں نے بہت سے لوگوں کی جان بچائی۔انھوں نے کہا کہ ابتدا میں تین چار گولیاں چلنے کی آوازیں آئیں۔ فائرنگ کی اچانک آوازوں سے جھٹکا لگا۔ہر شخص خوفزدہ ہو گیا۔ میں یہاں کلب کے عقب میں تھا اور لوگوں نے یہاں آنا شروع کردیا اور یہ جگہ کچھا کھچ بھر گئی۔وہ ان چند لوگوں میں شامل تھے جنھیں یہ علم تھا کہ لوگوں کے لیے پیچھے ایک محفوظ راستہ ہے۔ لیکن اس کی کنڈی کھولنی تھی۔انھوں نے کہا وہ چینخ چینخ کر کہہ رہے تھے کہ دروازہ کھولو اور کوئی دروازہ نہیں کھول رہا تھا سب ڈرے ہوئے تھے۔انھوں نے کہا کہ ان کے پاس ایک ہی راستہ تھا۔ یا تو ہم وہیں رہیں اور مارے جائیں یا پھر میں لوگوں کے اوپر سے کود کر دروازہ کھول کر باہر نکلنے کا خطرہ مول لوں۔انھوں نے کہا کہ دروازے کھولنے کے بعد 60 سے 70 لوگ اس راستے سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ایک کلب میں باقاعدگی سے آنے والے جوشوا میگل نے کہا کہ کار پارک میں وہ ایک گاڑی کے پیچھے چھپے ہوئے تھے کہ انھوں نے بار میں کام کرنے والے روڈنی سمٹر کو دیکھا وہ لڑکھڑا رہے تھے اور ان کا خون بہہ رہا تھا۔میگل نے انھیں گاڑی کے پیچھے گھسیٹ لیا اور اپنی قمیض سے ان کے زخمی بازو سے بہنے والے خون کو روکنے کی کوشش کی۔لیکن وہ سمٹر کی پشت پر گولی کے زخم سے خون روکنے کے لیے کیا کر سکتے تھے۔میگل نے کہا کہ انھوں نے سمٹر کے زخم پر دباؤ ڈالے رکھا اور انھیں قریب ہی کھڑے پولیس آفسر کے پاس لے کر گئے۔
اس وقت وہاں کوئی ایمبولینس موجود نہیں تھی۔ پولیس آفسر نے مجھے کہا کہ آپ میری گاڑی میں لیٹ جائیں اور سمٹر کو اپنے اوپر لٹا کر ان کی پشت کو زور سے تھام لیں تاکہ خون بہنا رک سکے۔میگل نے زخمی سے کہا کہ میرے ساتھ رہو، تم ٹھیک ہو جاؤ گے میں تمہیں یقین دلاتا ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا۔سمٹر جن کے دو بچے ہیں وہ اورلینڈو کے ایک ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔


Share: